Skip to main content

ماں کا خط بیٹی کے نام - 8


نور چشمی لخت جگر بیٹی عذرا پروین  (ریشما)،
اسلام علیکم -  دعائیں صد نیک درازی عمر و حیات -

بیٹی تمہارا خط ملا ، جملہ حالات سے آگاہی ہوئی ساتھ ہی یہ جان کر دلی خوشی ہوئی کے میاں عاصم ١٧ اکٹوبر کو بحمدلللہ  دو  سال کے ہو جآیں گے - بیٹی میری محبّت اور دعائیں تمہارے اور تمہارے شوہر اور اولاد کے لئے وقف ہیں کیوں کہ یہ تمہارا مجھ پر حق ہے- لیکن ساتھ ہی میں یہ ضرور کہونگی کہ انسان کا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ خود بخود اسکے لئے دل سے دعا  نکلے - 

بیٹی تم نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میاں عاسم کوتم حافظ وعالم بنانا چاہتی  ہو، اور یہ تمهاری دیرینہ خواہش ہے- آج میں تم کو ایسی ہی ایک والدہ سے ملاتی  ہوں-

والدہ محترمہ سیّد قطب شہید 

بیٹی عذرا محترمہ فاطمہ حسّیں عثمان آپ سیّد قطب شہید کی والدہ ہیں- آپ کے شوہر حاجی ابراہیم قطب- آپ کو دو لڑکے تین لڑکیاں تھیں - آپ کا گھرانہ بہت ہی دیندار گھرانہ تھا - آپ کے دو لڑکے سیّد قطب، محمد  قطب - لڑکیاں حمیده قطب، امینہ قطب، تیسرلڑکی  کا نام معلوم نہ ہو سکا - اس خاندان  قطب کی تفصیل آئندہ کسی خط میں پیش کرونگی۔ آج صرف سیّد قطب شہید کی والدہ کا تم سے تعارف کراتی ہوں- آپ کو قرآن شریف سے بدا شغف تھا -ان کی خواہش تھی کہ انکے بچّھے قران کے حافظ ہوں- سیّد قطب شہید اپنی کتاب (التصویر الغنی في القرآن) کا انتساب اپنی والده محترمہ کی طرف کرتے ہوئے  موصوفہ کی قران سے محبّت شیفتگی کا نقشہ یوں کھینچتے ہیں -

اے میری ماں -  گاؤں میں رمضان کا پورا مہینہ جب ہمارے گھر پر قاری حضرات قرآن کی دل نشین انداز میں تلاوت کرتے تھے تو تو گھنٹوں کان لگا کر پوری محویت کے ساتھ پردے کے پیچھے سے سنا کرتی  تھی - میں تیرے پاس بیٹھتا- جب شور کرتا  تھا  جیسہ کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے، تو مجھے اشاروں کنایوں سے باز رہنے کی تلقین کرتی تھی اور پھر میں بھی تیرے ساتھ کان لگا کر سننے لگ جاتا تھا-  میرا دل الفاظ کے ساحرانہ لحن سے محظوظ ہوتا اگر چہ اس وقت میں مفہوم سے ناواقف تھا- ماں تیرے ہاتھوں میں جب میں پروان چڈھا تو تو مجھے بستی کے ابتدائی مدرسہ میں بھیج دیا - میری سب سے بڑی آرزو تھی کہ الله میرے سینے کو کھول  دے اور میں قرآن حفظ کر لوں اور الله مجھے خوش الحانی سے نوازے اور میں تیرے سامنے بیٹھا ہر لمحہ تلااوت کیا کروں - چنانچہ مین نے قران  حفظ کر لیا اور یوں تیری آرزو کا ایک حصّہ پورا ہوا -  اے ماں تیرا ننھا بچّہ ، تیرا جوان لخت جگر آج تیری تعلیم و تربیت کی طویل محنت کا ثمرہ ہے جو تیری خدمت میں پیش کر رہا ہے-   اگر حسن ترتیل کی اس میں کمی ہے تو حسن تاویل کی نعمت سے وہ ضرور بہرہ ور ہے- بیٹی میری دعا ہے کہ تمہارے ساتھ بھی قدرت ایسا ہی کرے اور تمہاری آرزو ضرور پوری ہو

جہاد میں عورتوں کا حصّہ 

بیٹی عذرا تم نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ خواتین کا جہاد میں میدان جنگ میں شریک ہوئے بغیر بھی کس طرح حصّہ لیتی تھیں - بیٹی قرن اول میں لوگ اسلام کے اس نصب العین کو اچّھی طرح سمجھتے تھے اور شہادت کا درجہ حاصل کرنے کے لئے بیتاب رہتے تھے - مردوں کی طرح عورتیں بھی اس راه میں اپنا تن من دھن لٹا دیتی تھیں - جس کو جیسا موقع ملتا اور جو چیز میسّر ہوتی قربانی کے لئے پیش کر دیتی تھیں -

 عبدللہ بن خالق کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہارون رشید کے دور خلافت میں رومیوں نے بلاد اسلامیہ پر حملہ کیا اور کچھ مسلمان عورتوں کو قید کرلوگوں نے منصور بن عمار سے کہا کہ آپ لوگوں کو لڑنے کے لئے آمادہ کیجئے- چنانچہ وہ ایک روز لوگوں کو جمع کرکے تقریر کر رہے تھے کہ دوران تقریر ان کو ایک لفافہ  لاکر ديا حب اس کو کھولا  گیا تو اس میں سے ایک خط نکلا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا! میں ایک پردہ نشین خاتون ہوں - رومیوں نے جو کچھ مسلمان عورتوں کے ساتھ کیا اس کی مجھے اطلاع ملی ہے - مجھے بے انتہا افسوس ہوا - میں کچھ اور تو نہیں کر سکتی البتہ جی چاہتا ہے کہ اپنے سر کے بال کاٹ کر آپ  کی خدمت میں پیش کروں کہ شاید کسی غازی کے گھوڈے باندھنے کے ہی کام آ سکیں اور اسی وجہ سے اللہ رب العزت میری مغفرت فرمادے ۔

 بیٹی عزرا۔ عبدللہ بن خالق کا کہنا ہے کہ جس وقت یہ خط پڑھا جا رہا تھا  پورا مجمع زار زار رو رہا تھا۔

بیٹی عزراہ دین سے اخلاص کا یہی تعلق تھا کہ جس کے باعث یہ ملت بڑے بڑے    جاں گسل مرحلوں  کے ساتھ  سلامتی سے گزرگئی یہی مخلصانہ جذبہ تھا  جس کے سامنے دنیا کے بڑے بڑے بادتناه لرزه براندام نظر آتے تھے - یہ ایسی ٹدپ تھی جسے آج بھی ، ہم فخریہ بیان کرتے ہیں -  بیٹی عذرا  ہم زبان سے دن رات اسلاف کے اخلاص و ایثار کے گن گاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں سوچتے کے  ہمارے کردار کی یہ خوبی ہم میں کیوں نہ رہی - ہماری زندگی جھوٹی نمائش بن گئی - ہم اسلام کی راہ میں قربانی کا جذبہ کیوں پیش نہیں کرتے؟ 

خوبصورت آنکھیں

بیٹی عذرا،  ہر کوئی تمھیں کہتا ہے کہ تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں- بیٹی بات واقع سچ ہے کہ تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں - آج خوبصورت آنکھوں والی خواتین کے واقعات تمہارے علم میں لاؤں -

بیٹی عذرا،  مالک بن دینار فرماتے ہیں کی میں  مکہ معظمہ میں ایک خاتون کو دیکھا جس کی آنکھیں بےحد خوبصورت تھیں یہاں تک کہ مکہ کی عورتیں ان کی آنکھوں کی زیارت کے لئے آتی تھی- یہ بات دیکھ کر وہ نیک بخت خاتون رونے لگیں  جس سے ان کی آنکھوں پر برا اثر پڑا- جب ان سے کہا گیا کہ اگر اس قدر اشک  باری کروگی تو آنکھیں خراب ہو جائیں گی- خاتون نے جوا ب دیا کہ آپ لوگوں نے یہ بات میری ہمدردی میں کہی ہے لیکن دیکھئے اگر میرا شمار اہل جنّت میں سے ہے تو اللہ تعالی مجھے اس سے بہتر آنکھیں عطا فرمائے گا اور   اگر خدانخواستہ میں جنت کے لائق نہ ہوئی تو ان آنکھوں کو بھی وہاں سخت عذاب ہوگا- یہی دکھڑا مجھے ہر وقت لگا رہتا ہے- اسی وجہ سے میں بے چین رہتی ہوں اور روتی ہوں کی نہ جانے میرا انجام کیا ہونے والا ہے- یہ کہکر آپ پھر رونے لگیں اور اللہ کی یاد میں غرق ہو گئی- 

دوسرا واقعہ

حضرت سری سقطی ایک عورت کا حال  بیان فرماتے ہیں کہ جب وہ تہجد کی نماز کو کھڑی ہوتی تھی تو کہتی "اے اللہ ابلیس مجھے دیکھتا ہے-  میں اسے نہیں دیکھتی، تو اسے دیکھتا ہے اور اس کے سارے کاموں پر قادر ہے اور وہ تیرے کسی کام پر بھی قدرت نہیں رکھتا ہے- اے اللہ اگر وہ میری برائی چاھے تو اس کو دفع کر اور وہ میرے ساتھ مکر کرے تو تو اس کے مکر کا انتقام لے - میں اس کے شر سے تیری پناہ مانگتی ہوں اور تیری مدد سے اسے دیکھتی ہوں-" اور وہ روتی رہتی- روتے روتے اس کی ایک  آنکھ جاتی رہی-  لوگوں نے اس سے کہا رونا بند کرو ورنہ دوسری آنکھ بھی جاتی رہے گی-  اس نے کہا اگر یہ آنکھ جنت کی آنکھ ہیں تو اللہ پاک اس سے بہتر آنکھ عطا فرمائے گا، اور اگر دوزخ کی آنکھ ہے تو اس کا دور ہونا ہی اچھا ہے-

بیٹی عذرا، ان خاتون کی آنکھیں بھی بہت خوبصورت تھیں-  ان اللہ والیوں کو خوف خدا ایسا تھا کہ اپنی آنکھوں کی قطعی پروا نہ تھی خوبصورتی پر خوبصورتی پر فخر تو دور کی بات ہے-

بد اخلاقی کا جواب 

بیٹی عذرا تم نے لکھا ہے کہ تمہارے سسرال میں کوئی خاتون اکثر تم سے بداخلاقی کے ساتھ پیش آتی ہے جس سے تمھاری دل آزاری  ہوتی ہے- اس تعلق سے  ذیل میں ایک واقعہ تحریر کر رہی ہوں -

امام محمد نے اپنی مسند میں حضرت ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیق کو بے تحاشہ گالیاں دینے لگا- حضرت ابوبکر صدیق خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے- آخر کار جناب صدیق کا پیمانہ صبر سے لبریز ہوگیا اور انہوں نے بھی جواب میں اسے ایک سخت بات کہہ دی- ان کی زبان سے ؤو بات نکلتے ہی
حضور پر انعقاض طاری ہوا جو چہرے مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اٹھ کر تشریف لے گئے- حضرت ابوبکر صدیق بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہو لئے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرہ ہے وہ شخص مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے مگر جب میں نے اسے جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے؟

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جب تک تم خاموش تھے ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے وہ اس شخص کو جواب دیتا رہا- مگر جب تم بول پڑے تو فرشتے کی جگہ شیطان آگیا- میں شیطان کے ساتھ تو بیٹھ نہیں سکتا تھا اسی لئے اٹھ کر چلا آ گیا - دیکھا بیٹی کسی کی بھی بری بات کو خاموشی سے برداشت کرنے کے فائدے کہ فرشتے اپنے مددگار ہوتے ہیں- لہذا اب  تم کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ تم کو فرشتہ کی مدد چاہیے یا پھر شیطان کی؟ میرے خیال میں تم جیسی سمجھدار اور نیک لڑکی کبھی شیطان کو اپنے قریب آنے نہیں دے گی

بیٹی عذرا میری جانب سے تمام افراد خاندان کی خدمت میں حسب مراتب سلام دعائیں- میاں عاصم و میاں معظم کو کبھی نہ ختم ہونے والی دعائیں اور بے شمار پیار
 دعا گو فقط تمہاری ماں رضیہ سلطانہ نکہت

Comments

Popular posts from this blog

ماں کا خط بیٹی کے نام - آغاز

 میرے یہ خطوط عذرا پروین عرف ریشما، میری سب سے بڑی لڑکی جو 19 نومبر 1992 کو ایک ناگہانی حادثہ میں جل جانے کی وجہ سے  21 نومبر ہر 1992 کو انتقال کر گئی- انّ للّہٰ و انّ الیھ راجعون-  آج میں ان خطوط کو بذریعہ ماہانہ باجی دختران ملّت کے نام پیش کر رہی ہوں اس یقین کے ساتھ کہ وہ تمام لڑکیاں جن کی شادی ہو چکی ہے یا پھر ہونے والی ہے ان خطوط سے ضرور مستفید ہوں گی-  قارئین سے ایک ہی گزارش ہے کہ وہ مرحومہ عذرا کے لئے دعائے مغفرت فرمائیں اور قارئین باجی اپنی رائے سے ضرور مطلع فرمائیں- فقط ڈاکٹر رضیہ سلطانہ نگھت